سرکاری اُردو ٹی وی چینل

اگست 14, 2006

ہر کسی کو اپنی زندگی میں کچھ کرنے کی خواہش ہوتی ہے ـ ہمارے راشٹرپتی عالیجناب عبدالکلام صاحب، جنہیں بچپن سے اپنے وطن کی خدمت کرنے کی خواہش تھی اور وہ اپنے نیک مقصد میں کامیاب رہے ـ اور مجھے بچپن سے گرافک کا شوق تھا، اِس میں ڈپلومہ کے بعد آج صبح و شام صرف گرافک پر کام کرتا ہوں ـ اسکے علاوہ ایک اور خواہش بھی ہے کہ اگر دولت ملے تو مابدولت اپنے ٹیلیویژن چینلس بھی براڈکاسٹ کریں گے اور ایک اُردو ٹی وی چینل بھی ہوگا ـ پتہ نہیں مابدولت کا یہ خواب کب پورا ہوگا ـ یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ آج آخرکار بھارت سرکار نے اُردو ٹیلیویژن چینل دُوردرشن اُردو شروع کرنے کا باقاعدہ اعلان کردیا ـ جب بنگلور میں نوکری کر رہا تھا، تو ہمارے باس نے بھی اُردو ٹی وی چینل شروع کرنے کی سوچی اور تبھی ہم نے خوشی اور جوش میں آکر ملٹی میڈیا میں ڈپلومہ کیلئے جوائن کرلیا ـ مگر اسپانسرس میں اختلاف ہوگیا کہ اِس ٹی وی چینل کو خالص اسلامی بنائیں گے کیونکہ بھارت میں ایک بھی اسلامی ٹی وی چینل نہیں ہے، اور کچھ دوسرے اسپانسرس بھی اڑ گئے چونکہ اُردو چینل کا بیڑا اُٹھایا ہے تو یہ خالص اُردو انٹرٹینمنٹ چینل ہی بنے گا کیونکہ اسلامی چینل میں کوئی اشتہار نہیں دیتا اور یہ چینل اشتہار کے بغیر نہیں چلتا ـ اور پھر وہ ٹیلیویژن چینل شروع تو نہیں ہوا مگر ہمارا ملٹی میڈیا ڈپلومہ کمپلیٹ ہوگیا اور دل میں ٹھان لی کہ مابدولت کے پاس کچھ دولت آجائے تو پھر اُردو تو کیا، بھارت کے سبھی زبانوں میں اپنا ٹیلیویژن چینل ہوگا ـ اِس سے پہلے کہ ہم اپنا اُردو ٹی وی چینل شروع کرتے بھارت سرکار ہم سے آگے نکل گئی اور 15 اگست 2006 سے ’’دُوردرشن اُردو‘‘ براڈکاسٹ ہونے کی خوشخبری سنائی ـ اب تو ہم اِس سرکاری چینل کو اپنا ہی سجھیں گے ـ

اِن سے ملو ـ 27

اگست 11, 2006

یہ خدا ہے

بھارت نے خدا کو ستیہ دیکھنے پر اُکسایا کہ کِسطرح بُرے کا انجام بُرا ہوتا ہے ـ خدا غرّایا: ہم نے کب کسی کا بُرا چاہا؟ اگر وہی طالبان کو دکھاتے تو ہمارے حملے سے قبل ہتھیار ڈال دیتے ـ خدا نے مثال رکھی: اُسامہ کو ہم نے مہرہ دکھایا، اور وہ سنجیدگی کے ساتھ آج بھی ہمارے لئے ایک مہرہ کا رول نبھا رہے ہیں ـ خدا کو اِسوقت بالی ووڈ کی فلمیں کچھ زیادہ ہی پسند آنے لگیں، راتوں میں اُٹھ کر سنی دیول کی طرح دہاڑتا ہے اور کبھی نانا پٹیکر بن کر دیواروں سے گفتگو کرلیتا ہے ـ خدا کو خونین جنگوں پر مبنی فلمیں بھی دکھائیں جو اُسے راس نہ آئی، جیمس بانڈ شروع ہوتے ہی آنکھ لگ گئی یہاں تک کہ لارڈ آف دی رِنگ سے بھی پوری طرح فیضیاب نہ ہوسکا ـ کاش خدا بھی خونین جنگوں والی فلمیں دیکھ لیتا، کہ کسطرح لاکھوں کی تعداد میں عوام مارے جاتے ہیں، ہزاروں بچے یتیم اور عورتوں کو بیوہ بن کر رنڈیوں کیطرح خدمات دینی پڑتی ہے ـ کاش خدا دیکھ لیتا کہ تباہیوں سے کسطرح خوشحال گھرانے اُجڑتے ہیں، دھماکوں کی ہلچل سے عوام کسطرح چیختے ہوئے بھاگتے ہیں، وہ منظر بھی دیکھ لیتا کہ بچے اپنی ماں سے بچھڑ کر کسطرح بِلک کر روتے ہیں ـ مگر خدا سے ایسی دردناک فلمیں دیکھی نہیں جاتی، اور خون خرابہ، فتنہ فساد تو بالکل پسند نہیں کسی پر ظلم ہوتے دیکھنا بھی گوارا نہیں ـ آج بھی عراق میں خدا کو چیخ چیخ پکارا جا رہا ہے مگر مجال ہے خدا نے کبھی اُنکی سُنی، افغانوں کی اُمید، اُمید ہی رہ گئی کہ عنقریب غیبی امداد نصیب ہوگی اور وہ امداد غائب ہی رہی، بوسنیا اور چیچنیا والوں کو بھی خدا پر بھروسہ تھا کہ وہ مدد کیلئے ضرور آئے گا مگر اُنہیں بھی مایوسی نصیب ہوئی ـ یہ انسانی فطرت ہے یا پاگل پن، ہمیشہ خدا کو ہی یاد کیا جاتا ہے مگر خدا ہیکہ کِس کِس کو یاد رکھے؟ جسے یہ بھی نہیں معلوم کہ انسان زمین کھود کر ایندھن نکالتا ہے، خلاء میں کان پھاڑتے گذرتا ہے، چاند پر اُتر کر جھنڈا گاڑتا ہے، اندھیروں میں روشنی لاتا ہے، دنیا بھر کے حالات و واقعات کو کمیونیکیٹ کرتا ہے ـ خدا کے فرشتے اور اُسکے چہیتوں نے جو کچھ نہیں کرسکے اُسے آج کا انسان انجام دے رہا ہے ـ باوجود پھر بھی خدا کو دھونڈنے کا کام جاری ہے، پتہ نہیں کس کی شکل پر خدائیت نظر آئیگی؟ ـ ـ جاری

باقی پھر کبھی

اپنی خبر آپ

اگست 10, 2006

اخبار کا نام: روز نامہ انقلاب
مقام: ممبئی
زبان: اُردو

کل کے اخبار میں شہہ سُرخی:  ’’حزب اللہ کا اسرائیل پر کامیاب ترین حملہ‘‘

(چونکہ یہ اخبار گِف فارمیٹ میں خبریں شائع کرتا ہے، سُرخی کا لِنک نہیں ملا)

تبصرہ:
بہت پہلے اسی اخبار میں ایک سرخی پڑھی ’’اسرائیل کے حملے میں پانچ معصوم فلسطینی شہید‘‘ ـ یہاں رہتے ہوئے عرصہ ہوگیا ابھی تک کسی بھی فلسطینی کو معصوم نہیں پایا، اگر فلسطینیوں کو معصوم لکھا جائے تو ضروری ہے کہ سبھی انسانوں کو معصوم لکھا جائے ـ یہی فلسطینی اگر اسرائیلیوں کو مارے تو وہ مرے اور اسرائیلی انہیں ماریں تو یہ شہید کہلائے کیونکہ فلسطینی چند لوگوں کی نظر میں آج بھی معصوم ہیں ـ ویسے ہی حزب اللہ نام کا گروہ ساری دنیا کیلئے دہشت گرد گروپ ہے اور چند لوگ تو انہیں مجاہدین تصور کرتے ہیں بھلے اُنکا مقصد کچھ بھی ہو، یہ اپنے فائدے کیلئے لڑیں اور دوسروں کو ماریں دنیا بھر میں بدامنی پھیلائیں پھر بھی ایک خاص طبقے کیلئے مجاہد ہی کہلائیں گے حالانکہ اِن سے رتّی بھر فائدے کی امید نہیں ـ اِنکے گروہ کا نام حزب ’’اللہ‘‘ معنی کچھ بھی ہوں مگر مقصد کچھ اور، تبھی تو عرب ممالک کا بھی اِس گروہ سے اختلاف ہے ـ القاعدہ والوں نے جو وعدے اور دعوؤں کے ساتھ بلند بانگ نعرے لگائے تھے، دنیا دیکھ چکی ہے کہ اُنہیں کس طرح منہ کی کھانی پڑی ـ اگر القاعدہ گروہ حق پر ہوتا تو آج امریکہ القاعدہ والوں کے تلوے چاٹتے نظر آتا ـ

پوری عرب دنیا خاموش ہے، اور اِس اخبار کی سُرخی شاید ایک خاص طبقے کو خوش کرنے کیلئے چھاپی تھی ـ آج تک ’’حزب اللہ‘‘ کا تعارف نہ تو کہیں پڑھنے کو ملا اور نہ سُنا، اِس گروہ کی تعریف میں صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ اسرائیل کا کٹّر دشمن ہے، اسرائیل کے آرام میں خلل ڈالتا ہے ـ انکے گروہ کا عربی نام اتنا پیارا کہ اسرائیل کے ساتھ اٹکھیلیاں کھیلنے والے کو بھی مجاہد کے القاب سے نواز دیا ـ لبنان کے تازہ بُرے حالات کا ذمہ دار اسرائیل سے زیادہ حزب اللہ گروہ صاف دکھائی دیتا ہے ـ اگر حزب اللہ گروپ حق پر ہوتا تو آج صرف عرب ممالک ہی نہیں بلکہ ساری دنیا حزب اللہ کی حامی ہوتی ـ اپنے مفاد کیلئے عوام کا لہو بہانے والے مجاہد نہیں کہلاتے ـ اخبار کی سُرخی’’حزب اللہ کا اسرائیل پر کامیاب ترین حملہ‘‘ یہ کوئی خوش آئند بات نہیں، کیونکہ دوسرے ہی دن اِس اخبار کی سُرخی کچھ یوں بھی ہوسکتی ہے: ’’حزب اللہ کے جواب میں اسرائیل کا لبنان پر سب سے بدترین حملہ‘‘  وغیرہ ـ اخبار کا کام ہے بغیر کسی طرفداری کے خبریں چھاپے، اخبار کسی ایک خاص طبقے کو خوش نہیں کرسکتا، اگر اخبار کی خبریں بھی جانبدار رہیں تو وہ اخبار ہر کسی کیلئے خاص نہیں ـ

اِن سے ملو ـ 26

جولائی 29, 2006

یہ خدا ہے

کمال ہوگیا، اب خدا بھی خواب دیکھنا شروع کردیا ـ دنیا اتنی حسین کہ اب واپس عرش جانے کو دل نہیں مانتا ـ کیا خاک دنیا بنائی تھی آج جنت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا مگر افسوس کہ آج بھی فرشتے شمع جلائے عرش پر خالی گھومتے ہیں اگر انہیں بھی دنیا دکھا دے تو انسان بننے کیلئے تِلملا اُٹھتے ـ خدا کی حیرانگی، دنیا اِتنی تیز رفتاری سے ترقی کرچکی اور اُسے  خدمت کا موقع تک نصیب نہ ہوا، اب تو وہ طوفان اور زلزلوں کی ذمہ داری بھی امریکہ کو سونپنے تیار ہے ـ شاید زندگی پہلی بار خدا نے اخبار کھولا تو بھونچکا سا رہ گیا، ہر خبر خواتین کی عصمت دری سے بھڑی پڑی ـ امریکہ نے یاد دلایا دنیا بھر میں عورتوں کی عصمت دری عام سی بات ہے اور وہی عورتیں خبروں میں آتی ہیں جنہیں خدا پسند کرے ـ خدا نے طئے کرلیا اب وہ غزلیں لکھے عصمت دری کرنیوالوں کے تیوروں پر بھی اشعار لکھے چونکہ شعر و شاعری میں اب یہی چند باتوں کی کمی رہ گئی ہے ـ ظہیرہ نے واویلا مچایا، آخر مجھ میں کیا خرابی ہے؟ جب مائی کو خدا نے بلواکر انعامات سے نوازا، مجھے دعوت نامہ نہ سہی صرف انعام ہی بھیج دے ـ فرق صرف اتنا ہے وہاں پاکستان میں اُسکی عصمت دری ہوئی اور یہاں ہندوستان میں میری ـ آج مائی نے وہ عظیم مقام پالیا جب وہ مرے گی تو اسکی ایک لمبی مزار بھی بن سکتی ہے خود امریکہ سالانہ عرس کا اہتمام کرے گا ـ اب مائی کو کسی بات کا غم نہیں اور نہ ہی اُسکے لٹیروں سے شکایت، اِس وقت خدا کی رحمتیں مائی پر برس رہی ہیں ـ خدا کے بندوں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو چھوٹی بچیوں کے ساتھ منہ کالا کرنے کو باعثِ ثواب مانتے ہیں بلکہ عجیب فخر بھی محسوس کریں گے یہاں تک کہ چار بچوں والی بیوہ کے ساتھ شفقت اور ہمدردی جتاتے ہوئے عصمت دری کرتے نہیں تھکتے پھر یہی لوگ اِن عورتوں کو خدا کے حضور لیجاکر انعام و اکرام سے نوازتے بھی ہیں ـ اِن عظیم انسانوں کو دیکھ کر خدا کے فرشتوں نے بھی اپنے ارمانوں کا اظہار کر دیا کاش ہمارا شمار بھی انسانوں میں ہوتا ـ جاری

باقی پھر کبھی

اِن سے ملو ـ 25

جولائی 26, 2006

یہ خدا ہے

دنیا بیقرار ہے کہ خدا کی ایک جھلک دیکھ لے، پتہ نہیں وہ عیسی کی شکل میں ہوگا یا بھگوان گنیش کی طرح؟ اگر ہوبہو انسانوں کی طرح ہے تو پتہ نہیں کونسے سائز کا ہوگا اور عمر کے لحاظ سے چشمہ بھی پہنا ہو ـ یہ سب عوام کے تاثرات ہیں جو مختلف ٹی وی چینلوں کے مباحثوں میں شریک تھے ـ خدا کے دنیا میں آکر تقریبا دو سال ہونے کو آئے مگر ابھی تک امریکہ سے باہر نہیں نکلا، اُسے خوف ہے اگر باقی دنیا میں جائے اور لوگ اُس کا مذہب پوچھیں تو کیا جواب دے؟ اگر وہ ہندو ہے تو مسلمان کیوں نہیں اور عیسائی نکلا تو یہودی کیوں نہیں؟ ابھی تک خدا نے کھل کر اپنا مذہب نہیں بتایا البتہ امریکہ میں کسی چرچ کے قریب بھاشن دیتے دیکھا گیا جہاں غضبناک انداز میں اپنا حتمی فیصلہ سنایا: لعنت ہو اُسے جو امریکہ پر ایمان نہ لائے اور تباہ ہوجائے وہ شخص جو امریکہ کا کھائے پھر اُسی کو ملامت کرے اور جو امریکہ کو سُپرپاور نہیں مانتا وہ ہم میں نہیں ـ فی الحال عوام کنفیوژن کا شکار ہے خدا کو دنیا میں ابھی آنا تھا؟ اگر ہزار سال پہلے آجاتا؟ لوگ اس سے ٹیکنالوجی مانگتے، گھوڑوں اور خچروں پر سفر کرنے والے جدید طرز کی سواریاں مانگتے اور بیچارے خدا کے پاس علاء الدین کا چراغ تو نہیں کہ وہ لوگوں کے ارمان پورے کرے؟ خدا تو ٹھہرا انپڑھ گنوار اپنی قدرت کا مالک جس نے چمتکاری سے انسان کو بنایا مگر اُسے خود نہیں معلوم اُسکے بنائے ہوئے انسان ایسے کئی خدا بنانے پر قادر ہیں ـ اپنی تخلیق پر خدا خود پشیمان کہ کیا خاک انسان کو بنا دیا جو اُلٹا خدا پر ہی قبضہ جمالیا ـ اب تو اُسکی قدرت بھی کمزور نظر آتی ہے، عراقیوں کو آپس میں لڑوا کر اپنی قدرت کا خرچ بچالیا، تھکان ایسی کہ کندھے ماند پڑگئے ایران پر کوڑے برسانے کیلئے بھی ہاتھ نہیں اُٹھتا، اگر اُسکے فرشتوں نے ذرا سی مدد کی تو پھر قیامت برپا ہونے میں دیر نہیں جسے خدا بھی نہیں روک سکتا ـ خدا کو احساس ہونے لگا اب انسانوں کو خدا کی ضرورت نہیں ـ ہر کوئی خود کو خدا سمجھتا ہے، آبادی بربادی سب انسان کے ہاتھوں میں ـ دنیا سے واپس آسمان فرار ہوجائے تو اُسے پانے کے چکر میں عرش تک میزائل مار سکتا ہے ـ انسانوں کی ذہنیت ایسی کہ اعتبار کرنا مشکل ہے ـ خدا نے افسوس ظاہر کیا: کاش میں آدم کو نہ بناتا کہ ایک دن اُسکی اولاد اُس کے بنانے والے کو ہی مار دے ـ ـ جاری

باقی پھر کبھی

خدا کے میزبان