Archive for the ‘عام خیالات’ Category

اِن سے ملو ـ 23

جولائی 17, 2006

یہ خدا ہے

نیویارک شہر میں آج سب کی نظریں برقعہ پوش خواتین پر ٹکی رہیں، کسی نے واہیات افواہ پھیلائی کہ خدا برقعہ پہن کر شہر میں سیر سپاٹہ کر رہا ہے ـ شام کو ٹی وی پر خلاصہ کردیا: افواہوں پر دھیان نہ دیں، خدا برقعے میں نہیں بلکہ وہ اسرائیل میں اپنی خدمات انجام دے رہا ہے اور امریکہ کے اشاروں پر لبنان کو بیلی ڈانس کروا رہا ہے ـ تبھی پتہ نہیں کسی کمبخت نے سوریہ سے ایک میزائل اسرائیل کی طرف چھوڑا، وہ تو پھٹا نہیں البتہ میزائل پر اُسامہ بن لادن کا پوسٹر چسپاں ہے جسکے نیچے انگریزی میں لکھا تھا I am in Syria, Catch me if you can? خدا کو غصّہ تو بہت آیا مگر وہ کرے بھی تو کیا؟ کہاں کہاں اپنی نظر رکھے؟ بڑے ہی غضبناک انداز میں خدا نے فرمایا: خدا کو خدا کی قسم، برائے کرم ہماری غیرت کو نہ چھیڑے چونکہ اِس وقت عظیم الشان پیمانے پر عالمی جنگ چھڑنے کا اندیشہ ہے اور اسرائیل نے باقاعدہ بسم اللہ کردی دوسری طرف سُوریہ نے اپنا کلمہ پڑھا اب صرف ایران کے نوحہ پڑھنے کی دیری ہے ـ دوسری طرف کپکپاتے مشرف کی حالت بگڑ گئی، خدا کی مصروفیت ایسی کہ اب وہ کس سے اپنی فریاد کرے؟ میاں نواز اور بینظیر دونوں ملکر مشرف کی قبر کھودنا شروع کردی اور مشرف کو بھی احساس ہوگیا کفن ملے یا نہ ملے وردی کے ساتھ ہی قبر میں اُترنا پڑے گا ـ گذشتہ روز G-8 کی بیٹھک میں امیر ملکوں نے جو فاتحہ پڑھی مگر اِس بار تبرّک غریب ممالک میں بانٹنے کی بجائے اسرائیل پر خرچ کرنے کا ارادہ ہے ـ سبھی ملکوں کی طرح آج بھارت نے بھی لبنان کو اپنی طرف سے افسوس لکھ بھیجا چونکہ اِسوقت لبنان کو ملنے والے افسوس اور ہمدردیاں خدا کی نظروں سے سنسر ہوکر گذر رہے ہیں ـ خلیجی ملکوں میں روزگار بیرون ممالک کے باشندے اپنا بوریا بستر باندھے تیار کھڑے ہیں پتہ نہیں کب کیا ہوجائے کیونکہ اِس وقت خدا کی نیت ذرا بھی ٹھیک نہیں جو دیوانہ وار توپ بازی میں مشغول ہے اگر ایک توپ ذرا بھی آر پار نکل جائے تو گلف وار کے ساتھ عالمی وار میں دیر نہیں ـ ـ

خدا کے فرشتے


جاری

باقی پھر کبھی

اِن سے ملو ـ 22

جولائی 14, 2006

یہ خدا ہے

آجکل خدا بھی چھُپا چھُپی کھیل رہا ہے، کسی پر نگاہیں تو کسی پر نشانہ ـ فلسطین پر غرّایا اور لبنان کے کان پھاڑے ـ امریکہ نے یہ کہتے ہوئے اپنا منہ چھُپالیا کہ یہ سب خدا کی کارِستانی ہے جس میں ہمارا کوئی ہاتھ نہیں اور ہم نے خدا سے صرف گذارش کی تھی کہ آج اسرائیل بیچارا بہت مشکلوں میں ہے اُسکی مدد کرے ـ خدا جب چاہے ہر کسی کے کان پھاڑ سکتا ہے، ابھی فلسطینیوں کے کان سے دھُواں نہیں چھُوٹا اُدھر لِبنان کے کان بھر دیئے ـ ـ جاری

باقی پھر کبھی

نوٹ:

ممبئی بلاسٹ پر خدا نے چُپ سادھ لی، اُسکے پاس الفاظ نہیں تھے ـ

اِن سے ملو ـ 21

جولائی 10, 2006

یہ خدا ہے

جاپانی سائنسداں چیختے ہوئے اپنے لیبس سے باہر کود پڑے، آج جاپان نے بالآخر اپنا سینہ ٹھونکتے ہوئے دنیا کے سامنے یہ خوشخبری سنادی:
ہم نے وعدے کے مطابق خدا کے ہوبہو مزید چار خدا بنالئے جس نے آزمائشی طور پر اٹلی کی قسمت چمکا دی ـ اس وقت امریکہ اپنے مہمان خدا سے ناراض ہے، ہمارے پاس ایک، اور جاپان کے پاس چار خدا؟ چند دن قبل فرانسیسی صدر شیراک نے اپنے گھر کے پیچھواڑے میں ایک مصنوعی قبر بنالی جس پر خدا کا نام لکھ دیا اور قبر کو باقاعدہ مزار کی شکل دیکر اُس پر اپنی ناک رگڑتے رہے، اُنکی آنکھیں تب کھلیں جب زین الدین زیدان کو ریڈ کارڈ تھما دیا ـ اتنا سننا تھا، شیراک نے اپنے ہاتھوں سے بنائی ہوئی خدا کی مزار اپنے ہی پیروں سے روند دیا ـ فتحیاب اٹلی کی ٹیم نے زندگی میں پہلی بار سجدہ کیا جس کا رُخ جاپان کی طرف تھا اور اٹلی کی عوام کو آج پتہ چلا کہ زین الدین زیدان کیسے گنجا ہوا ـ فرانس کے صدر نے امریکہ کو شکایتی میل بھیجی جس میں پہلا جملہ یہ لکھا: آج خدا پہلے جیسا نہ رہا ـ امریکہ نے جسے خدا سمجھ کر اپنا شاہی مہمان بنا رکھا ہے، اُسے واپس آسمان بھیجدے جو ہمارے اتحاد کیلئے سود مند نہیں ـ فرانس نے باقاعدہ آج اپنا کلمہ بھی تبدیل کرلیا جس میں خدا کا نام ہٹا کر جاپانی خدا کو ایڈ کرلیا ـ اُدھر جرمنی نے جاپان کو آفر بھیجا کہ ایک خدا ہمیں بھی دے اور منہ مانگی قیمت وصول کرے تاکہ امریکہ کو فولادی چنے چبوا سکیں ـ جاپان نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھا کر کہا: خدا کو خدا کی قسم، وہاں امریکہ میں کیوں اپنا ٹائم خراب کر رہا ہے، کاش خدا امریکہ کے بجائے جاپان کا شاہی مہمان ہوتا تو آج وہ اپنے مصنوعی ہمخداؤں کو دیکھ کر پھولے نہ سماتا ـ ـ جاری

باقی پھر کبھی

اِن سے ملو ـ 20

جولائی 6, 2006

یہ خدا ہے

جہاں کہیں بھی رونق لگی خدا اپنی رحمتیں نچھاور کرتا ہے اور خدا کو جنازوں میں شرکت کا تجربہ نہیں البتہ جلوسِ جنازہ کو بھی بارات کی طرح اِنجوائے کرتا ہے ـ ممبئی کی بے رونق سیلابوں سے جہاں اسکولی بچوں کو راحت ملی وہیں خدا کے چاہنے والوں نے اُسے گالیاں بھی دیں ـ برسات میں بہتے گھروں کو خدا نے سوئمنگ پول کے القاب سے نوازا، بھلے کسی کیلئے رحمت ہو یا زحمت ـ ٹوٹی چھتوں سے ٹپکتے پانی کو بھی اِنجوائے کرنے کا حکم دیدیا اگر برداشت کے قابل نہیں تو کسی سنیما ہال میں بیٹھ کر نائٹ شو دیکھنے کا فرمان جاری کیا ـ آسمان کو اُمید کی نظروں سے دیکھنے والے کسان بھی، اُن بیچاروں کو کیا معلوم برسات کی دعاؤں سے پانی اِتنا برسے کہ کھیت کلیان ہی اُجڑ گئے ـ کاش خدا بھی ایک کسان ہوتا تو اُسے خودکشی تک راس نہ آتی ـ آج بھی بنگلہ دیشیوں کو خدا حقارت بھری نظروں سے دیکھتا ہے، اُدھر کیتھرینا والوں کے آنسو طوفان میں ایسے بہا دیئے کسی کو احساس بھی نہیں کہ کب کیا ہوا تھا لیکن بنگالیوں کے آنسو خود سیلاب ہیں ـ جب تک خدا آسمانوں میں اُڑتا رہا اُسے دنیا کی خبر نہیں اور جس دن سے امریکہ کا مہمان بنا تب سے اُس کی نیت کچھ ٹھیک نہیں، صرف ایک اسرائیلی سپاہی کی خاطر درجنوں فلسطینیوں کو کچل دینا اُسکی عظمت کو مزید چار چاند لگانے کے برابر ہے ـ کاش خدا ایک فلسطینی ہوتا تو آج وہ بھی شہید کہلاتا ـ وہ تو امریکی تابعدار جس کے اِشاروں پر غریب انڈونیشیا کو جھڑکتا جا رہا ہے، حالانکہ وہاں کے لوگوں نے پُکارا بھی کہ خدا کو خدا کی قسم ہمارے غریب ملک پر اپنی بری نظر ہٹالے کیونکہ ہم بھی امریکہ پر تھوڑا بہت ایمان رکھتے ہیں ـ پتہ نہیں امریکہ نے خدا کو کونسا خواب دکھا دیا کہ اُس نے اب جنت بھی امریکہ میں بنانے کا ارادہ رکھ لیا ـ ممبئی والوں نے توجہ دلائی کہ ایک نظر یہاں بھی ڈالے، یہ کیسی بیحودہ برسات ہے یا پھر خدا کی دیوانگی؟ کاش خدا کو لوکل ٹرینوں میں لٹکنے کا تجربہ ہوتا، کاش خدا کو جھونپڑوں میں رات کاٹنے کا تجربہ ہوتا ـ یہاں تک کہ مفت میں کِرِش دکھانے کیلئے خدا کو آفر بھی دیا تھا تاکہ اِسی بہانے خدا ممبئی آئے اور برسات تھمے مگر خدا نے توبہ کرلی کیونکہ وہ پہلے نیا سُپرمین دیکھنا چاہتا ہے ـ خدا تو امریکی تابعدار جس کے پاس ذرا بھی فرصت نہیں جو اسوقت ایران پر اپنی نظرِ زحمت گاڑے بیٹھا ہے اور اُسکے فرشتے بھی اپنے ناخن تیز کرلئے پتہ نہیں کب حکم ملے اور ایران کو کھروچیں ـ ـ جاری

باقی پھر کبھی

بلدیہ شارجہ

جولائی 5, 2006

پچھلے تین سالوں سے ہماری رہائش گاہ شارجہ کے اُس علاقے میں ہے جو پورے امارات کا سب سے خوبصورت اور شفاف مانا جاتا ہے ـ مگر اب بلدیہ شارجہ بھی حکومت دبئی کی طرح ہم بیچلرس کو یہ جگہ چھوڑنے پر مجبور کر رہی ہے، اب یہاں صرف فیملیز والے ہی رہیں گے ـ درمیان میں کورنیش، اطراف قطاروں میں بلند و بالا عمارتیں جیسے جنگل میں گھنے درخت، چوڑی سڑکیں، دنیا بھر کی عالیشان ریسٹورنٹس ـ ہماری قیامگاہ جو اٹھارہ منزلے والی بلڈنگ میں آٹھویں فلور پر ہے، میرے بیڈ روم کی کھڑکی سے ایسا خوبصورت نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے شاید ہی میں نے کبھی دیکھا ہو ـ سامنے کورنیش اُسکے اطراف خوبصورت پارک جس پر کھجور کے درخت پھر سڑک کے کنارے بلڈنگ میں ہماری رہائشگاہ ـ اور دوسرے کمرے کی کھڑکی سے کھلا سمندر صاف دکھائی دیتا ہے اور اُسکے کنارے دبئی جانے والی شاہراہ پر قطاروں میں رینگتی ہوئی گاڑیاں، روڈ کے داہنے جانب چھوٹا ریگستان آگے فلائی اوور پھر یہاں سے دبئی کی شروعات ـ شارجہ اور دبئی کے انسڈسٹریل ایئریا میں کنسٹریکشن کا کام زوروں پر، پتہ چلا یہی ہم بیچلرس کی رہائشگاہ ہوگی جہاں دور دور تک صرف اور صرف انڈسٹریاں ہی انڈسٹریاں ہیں اور باقی کچھ نہیں ـ ہماری کمپنی نے اپنا ہیڈکوارٹر جو اب تک شارجہ میں ہے، دبئی کے فری زون میں شفٹ کرنے کا پلان بنالیا ہے یعنی کہ وہاں بھی سوکھا، دور دور تک دنیا بھر کی کمپنیاں، کارخانے اور چاروں طرف مٹی کا ریگستان جیسے جنگل میں منگل ـ کل ہی اخباروں میں خبر دی ہے کہ دنیا بھر کے پچیس فیصد کرین صرف دبئی میں ہیں یعنی کہ ہانگ کانگ، بنکاک، سنگا پور کے بعد اب سب سے زیادہ کنسٹریکشن کا کام دبئی اور شارجہ میں ہو رہا ہے ـ دھیرے دھیرے یہاں کے ریگستان بھی چھوٹے ہوتے جا رہے ہیں یہاں تک کہ سمندر پر بھی مصنوعی جزیرے بچھا کر عالیشان عمارتیں، پتہ نہیں اِس چھوٹے سے ملک کو کیا بنانے جا رہے ہیں؟؟